بستی کے سب مکاں خس و خاشاک ہو گئے
اور پھول سے بدن بھی وہاں خاک ہو گئے
گریہ کناں ہواؤں میں ہے سسکیوں کی گونج
آنکھوں میں جتنے خواب تھے نمناک ہو گئے
اجڑے چمن کو اور اجاڑیں گی بارشیں
موسم کے سارے روپ ہی سفاک ہو گئے
گرتے ہوئے گھروں کا سہارا نہ بن سکے
جو پیڑ بچ گئے ہیں وہ غمناک ہو گئے
اب کیا دوا علاجِ مسیحائی کس لئے
وحشت بڑھی ہے اتنی کہ دل چاک ہو گئے
یوں سانحے کی زد میں وطن آگیا مرا
تاریخ کے ورق بھی المناک ہو گئے
دامن کے داغ ،روح کی آلودگی گئی
اُس آگ میں جلے ہیں کہ بس پاک ہو گئے
اے آسماں بتا یہاں آباد کل جو تھے
وہ لوگ کیا زمین کی پوشاک ہو گئے
فاطمہ حسن
Post a Comment